encyclopedia

فتح مکہ | اسباب، ابو سفیان کا اسلام لانا، مجرموں کو سزا و فتح

Published on: 20-Jun-2025

فتح مکہ کا معرکہ ماہ رمضان المبارک، سن 8 ہجری میں پیش آیا 1 جس میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نہایت منظم اور جامع حکمت عملی کی وجہ سے مسلمانوں نے بغیر جنگ کئے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا تھا۔ 2 مسلمانوں کی فوج میں اُس وقت تمام انصار و مہاجرین شامل تھے 3 جن کی تعداد لگ بھگ 10 ہزارکے قریب تھی۔ 4 یہ فتح "فتح عظیم" کے نام سے بھی جانی جاتی ہے کیونکہ اس کامیابی کے بعد اسلام پورے عرب میں پھیلا اور لوگ پہلے کے مقابلہ میں بہت بڑی تعداد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 5

فتح مکہ کی مہم کے اسباب

صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں طے کیا گیا تھا کہ مسلمان اور قریش ایک دوسرے کے ساتھ 10 برس تک امن وامان کے ساتھ رہیں گے اور عرب قبائل کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ قریش یا مسلمانوں میں سے جس کے حلیف بننا چاہیں بن کر رہ سکتے ہیں۔ 6 معاہدہ کی اس شق کی رو سے مزید اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ حلیف بننے والے قبائل جس بھی گروہ کے ساتھ معاہدہ کریں گے وہ اس گروہ کا باقاعدہ حصہ بن جائیں گے۔ 7 اس معاہدہ کے پختہ ہونے کے بعد بنوخزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے جس کی وجہ سے ان کے درمیان لمبے عرصہ پر محیط جنگ وجدال ختم ہوا اور مکمل امن ومان قائم ہوگیا۔ 89 اس امن وامان کے قیام کے تقریباً دوسال بعد 10 قبیلہ بنو بکر نے قریش کے تعاون سے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کر ڈالا اور معاہدے کو توڑ دیا۔ 11

بنو خزاعہ پر قبیلہ بنو بکر کے حملے کا سبب دونوں قبیلوں کے درمیان ایک پرانہ تنازعہ تھا جو اس معاہدہ پر دستخط کرنے سے قبل پیش آیا تھا۔ 12 بنو بکر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے نوفل بن معاویہ نے اپنے قبیلہ اور قریش کے چند افراد مثلاً صفوان بن امیہ، شیبہ بن عثمان، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ قبیلہ کے بے سرو سامان اور غیر مسلح افراد جو "الوتیر" نامی کنویں کے قریب قیا م پذیر تھے، ان پر حملہ کر ڈالا۔ بنو خزاعہ کے لوگ اس وقت یہ قوت اور طاقت نہیں رکھتے تھے کہ وہ ان کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کریں چنانچہ بنو خزاعہ کے کئی افراد اس حملہ میں قتل ہوگئے 13 جبکہ باقی لوگوں نے جان بچا کر حرم کی حدود میں پناہ لی۔ 14 بنو بکر کے حملہ آوروں نے جب یہ دیکھا کہ بنو خزاعہ کے بچے ہوئے لوگوں نے حرم کی حدود میں پناہ لے لی ہے تو انہوں نے اپنے سردار نوفل کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ حدود حرم کے تقدس و احترام کے باعث خزاعہ کے بچے ہوئے لوگوں کا پیچھا کرنے سے گریز کیا جائے۔ نوفل نے یہ سن کر کہا:

‌لا ‌إله لي اليوم، يا بني بكر، لعمري إنكم لتسرقون الحاج في الحرم، أفلا تدركون ثأركم من عدوكم، ولا يتأخر أحد منكم بعد يومه عن ثأره؟! 15
اے بنو بکر! آج میرا کوئی خدا نہیں ہے! میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں! تم تو وہ لوگ ہو جو حدود حرم کے اندر حاجیوں کو لوٹا کرتے ہو! کیا تمہیں احساس نہیں کہ آج تم اپنے دشمن سے بدلہ لے سکتے ہو، اور آج کے بعد تم میں سے کوئی بھی اپنا انتقام مؤخر نہ کرے!

نوفل کی اس اشتعال انگیز گفتگو نے اس کے قبیلہ کے لوگوں میں انتقام کی آگ کو بھڑکا ڈالا چنانچہ انہوں نے حرم کی حدود کے اندر بنو خزاعہ کے غیر مسلح لوگوں کا تعاقب کیا۔ جب بنو خزاعہ کے ان باقی ماندہ لوگوں نے بھاگ کر بنو خزاعہ کے سردار بدیل خزاعی کے یہاں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس میں ناکام رہے کیونکہ قبل اس کے کہ وہ اپنے سردار کی پناہ میں آتے بنو بکر کے حملہ آوروں نے انہیں جا لیا اور اسی مقام پر قتل کرڈالا۔ اگلی صبح جب قریش کے عمائدین کو اس پورے واقعہ کی اطلاع ہوئی تو انہیں اپنے حلیف بنو بکر قبیلہ کے اس ظالمانہ اور سفاکانہ رویے پر شدید شرم وندامت کا احساس ہوا اور انہوں نے کھل کر بنو بکر قبیلہ کی مخالفت کی کیوں کہ اس قبیلہ نے عرب روایات کا پاس ولحاظ رکھنے کے بجائے پورے معاہدہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ 16

قبیلہ خزاعہ کے سردار عمرو بن سالم کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو وہ 40 لوگوں کوساتھ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس خون خرابہ کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر عمرو نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پوری صورتحال سےآگاہ کیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مدد کی درخواست کی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس پورے واقعے کو جاننے کے بعد اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور فرمایا:

لا نصرت إن لم أنصركم بما أنصر منه نفسى. 17
میری مدد نہ کی جائے اگر میں تمہاری ایسی ہی مدد نہ کروں جیسے اپنی کرتا ہوں۔

عمرو بن سالم کے بعد قبیلہ خزاعہ کے سردار بدیل ابن ورقہ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے اورقریش کے حلیفوں کے کردار کے بارے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آگاہ فرمایا۔ 18ان دونوں کی پوری بات کو سماعت فرمانے کے بعد نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو مشورہ دیا کہ ایک ساتھ واپس جانے کے بجائے وہ واپسی کا سفر الگ طے کریں تاکہ قریش کو اس بات کا علم نہ ہونے پائے کہ وہ مدینہ منورہ کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن سالم نے واپسی کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت ساحلی علاقے کا انتخاب کیا 19 جبکہ بدیل سیدھے راستے سے واپس مکہ چلے گئے۔ 20 اس واقعے نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شدید رنج اور غصے میں مبتلا کر دیا، تاہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خونریزی سے بچنے کے لیے صبر و حکمت کا مظاہرہ فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ضمرہ Radi Allah Anho کو قریش کے پاس بھیجا اور ان کے سامنے تین میں سے کسی ایک شرط کے انتخاب کی پیشکش کی، جو درج ذیل تھیں:

  1. بنو بکر جس نے بنو خزاعہ کے لوگوں کا قتل عام کیا تھا انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان سے ان تمام افراد کا خون بہا لیا جائے جو اس واقعے میں مقتول ہوئے۔
  2. یا قریش اس بات کا اعلان کریں کہ بنو بکر اب صلح و معاہدہ حدیبیہ کا حصہ نہیں رہے تاکہ مسلمان ان سے علیحدہ طور پر نمٹنے کے انتظامات کریں۔
  3. یا پھرقریش اس بات کا اعلان کردیں کہ صلح حدیبیہ ختم ہو گئی ہے۔ 21

قریش تک جب یہ پیغام پہنچا تو قرظہ بن عبد عمر بن نفیل نے مذکورہ بالا دو شرائط کو مسترد کردیا اور حضرت ضمرہ Radi Allah Anho سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں صرف تیسری ہی شرط منظور ہے کہ معاہدہ اور صلح حدیبیہ کو ختم سمجھا جائے۔

واقدی Rehmatullah Alaih کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس قتل و غارت کے واقعہ کے بعد قریش کو کسی بھی بات کا اختیار نہیں دیا بلکہ اہل مکہ نے اس واقعے کے فوری بعد خود اپنے سردار ابو سفیان کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طریقے سے صلح حدیبیہ کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔ 22 البتہ امام ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا ایک نمائندہ قریش کی طرف بھیج کر مندرجہ بالا شرائط ان کے سامنے رکھیں 23 جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قریش کے سامنے عملی طور پر قابل قبول حل پیش کیے اور اچانک جنگ کو مسلط نہیں فرمایا کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بھی بھرپور خواہش اور کوشش یہی تھی کہ وہ صلح حدیبیہ کو جسے بنو بکر اور قریش کی ظالمانہ خونریزی نے مل کر تار تار کردیا تھا اس کو توڑنے کے بجائے باقی رکھا جائے۔ دوسری طرف قریش بھی یہ بات بخوبی جان چکے تھے کہ انہوں نے صلح حدیبیہ توڑ کر جنگ کا اعلان کر دیا ہے جس کے نتائج ان کے حق میں انتہائی ہولناک ثابت ہو سکتے ہیں چنانچہ وقت ضائع کیے بغیر انہوں نے بھی اپنا مشاورتی اجلاس بلوایا اور اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔ نتیجتاً انہوں نے ابو سفیان کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں اس لیے روانہ کیا کہ وہ اس معاہدے اور صلح نامے کی ازسر نو تجدید کر سکیں۔ 24

ابو سفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے فوراً ہی مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن عسفان کے علاقے میں ان کی ملاقات بدیل سے ہوئی۔ ابو سفیان نے ان سے پوچھا کہ وہ مدینہ منورہ سے و اپس آرہے ہیں یا کسی اور جگہ سے تو بدیل نے ابو سفیان کو کہا کہ وہ اس وادی کے درمیان خزاعہ قبیلے کہ کچھ لوگوں سے ملنے گئے تھے اور اب وہاں سے واپس آرہے تھے۔ بدیل جب دور چلے گئے تو ابو سفیان نے بدیل کی اس بات کو جاننے کے لیے ان کے اونٹ کی مینگنیوں کو اٹھا کردیکھا اور ان کی کیفیت سے فورا سمجھ گئے کہ وہ مدینہ منورہ سے ہی و اپس آرہےتھے۔ 25

ابو سفیان کی امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ Radi Allah Anha سے ملاقات

ابو سفیان جب مدینہ منورہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنی صاحبزادی اور زوجہ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam، ام المؤمنین سیدہ امّ حبیبہRadi Allah Anha کے گھر میں داخل ہوئے۔ آپ کے گھر میں داخل ہونے کے بعد قریب تھا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گدّے پر بیٹھ جاتے لیکن حضرت امّ حبیبہ نے ان کے وہاں پر بیٹھنے سے پہلے ہی اس گدّے کو لپیٹ کر اسے دور رکھ دیا۔ ابو سفیان نے یہ دیکھ کر اپنی صاحبزادی سے پوچھا کہ یہ گدّا ان کے بیٹھنے کے قابل نہیں یا وہ اس گدّے پر بیٹھنے کے قابل نہیں۔اس پر حضرت امّ حبیبہ Radi Allah Anha نے انہیں نہایت ایمان افروز جواب دیا اور فرمانے لگیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ اس گدّے پر بیٹھ سکیں کیونکہ وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خاص گدّا تھا اور وہ (ابوسفیان) ابھی تک مشرک تھے اور مشرک نجس یعنی باطنی طور پر گندا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس پر بیٹھیں۔ 2627 یہ سن کر ابو سفیان حیران و پریشان ہو کر رہ گئے کیونکہ کوئی بھی باپ اپنی بیٹی سے اس جواب کی توقع نہیں کرسکتا تھا اس لئے عالم گھبراہٹ میں وہ کہنے لگے کہ امّ حبیبہ پر جنات یا شیطان کا اثر ہوگیا ہے۔ حضرت امّ حبیبہ Radi Allah Anha نے اپنے والد کی گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں اسلام کی دعوت دی جس پر وہ کہنے لگے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کا دین کسی بھی صورت میں ترک نہیں کر سکتے اور یہ کہہ کر اپنی صاحبزادی کے گھر سے روانہ ہوگئے۔ 28

ابو سفیان کی آپ Radi Allah Anha سے ملاقات

ابو سفیان اب براہ راست آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے تاکہ صلح حدیبیہ کی شرائط پر گفتگو کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دوبارہ صلح کی تجدید پر آمادہ کرسکیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی گفتگو سن کر نہ تو ان سے بات چیت کی اور نہ ہی ان کی درخواست پر کوئی رد عمل ظاہر کیا۔ ابو سفیان وہاں سےاٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho کے پاس گئے، پھرحضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anho کے پاس پہنچے، پھر حضرت عثمان غنی Radi Allah Anho کے پاس اور پھرحضرت علی بن ابی طالب Radi Allah Anho کے پاس گئے اور اس مسئلے میں ان سے سفارش کی درخواست کی لیکن ان سب نے ہی ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ابو سفیان یہ سب کچھ دیکھ کر انتہائی مایوسی میں مبتلا ہوئے اور بالآخر حضرت فاطمہ Radi Allah Anha کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ حضرت حسن Radi Allah Anho جو اس وقت صحیح طور پر چل بھی نہیں پاتے تھے ان سے اس معاملے میں مداخلت اور سفارش کروائیں تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائیں۔ حضرت فاطمہ Radi Allah Anha نے انہیں پہلے تو اسی طرح جواب دیا جس طرح حضرت علی Radi Allah Anho نے انہیں دیا تھا اور اس کے بعد آپ Radi Allah Anha نے فرمایا کہ حضرت حسن Radi Allah Anho اپنی عمر کے لحاظ سے اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ کوئی بھی بات یا سفارش کسی کے لیے نہیں کر سکتے۔ 2930 چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب ترین صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی طرف سے اپنی سفارش اور مدد کے لیے انکار سن کر ابو سفیان دوبارہ حضرت علی Radi Allah Anho کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے ان حالات میں نصیحت اور مشورہ کی درخواست کی۔ 31 حضرت علی بن ابی طالب Radi Allah Anho نے ابو سفیان کو مشورہ دیا کہ چونکہ وہ بنی کنانہ کے سردار ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوکر ان کے لیے امن کا اعلان کریں اور پھر مکہ واپس چلے جائیں۔ جب ابو سفیان نے دریافت کیا کہ کیا یہ طریقہ کارگر ہوگا، تو حضرت علی Radi Allah Anho نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ ممکن ہے یہ کارگر نہ ہو، لیکن اس کے سوا ابو سفیان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ چنانچہ ابو سفیان مسجد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam گئے، لوگوں کے درمیان امن کا اعلان کیا اور پھر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ 32

ابو سفیان جب مکہ پہنچےتو انہوں نےتمام سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اس موضوع پر بات کی لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی بات نہ تو قبول کی اور نہ ہی اپنافیصلہ تبدیل فرمایا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان سرداروں کو یہ بھی بتایا کہ کس طرح وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب ترین ساتھیوں اور صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اس معاملے میں اپنی سفارش کے لیے تیار کرنے پر ناکام رہے۔ آخر میں جب ابو سفیان نے مکہ کے سرداروں کو حضرت علی Radi Allah Anho کی نصیحت کے بارے میں بتایا جس پر انہوں نے عمل بھی کیا تھا تو انہوں نے اس کے جواب میں ابو سفیان سے یہ بات پوچھی کہ کیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے اس اعلان کو قبول فرمایا تو ابو سفیان نے اس کا جواب بھی نفی میں ہی دیا۔ 33

غزوہ مکہ کا اعلان

جب ابو سفیان کی مکہ روانگی کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے گھر کے باہر تشریف فرما ہوئے، حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho کو بلوایا اور پھر ان کے ساتھ نہایت رازدارانہ طریقے پر مشاورت شروع فرمائی۔ یہ گفتگو کافی دیر جاری رہی جس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anho کو طلب فرمایا اور ان سے بھی اس مسئلے میں مشاورت فرمائی۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پہلے اپنے قریبی صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے مشاورت فرمائی 34 اور اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تمام صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے قریش کے خلاف اعلان جنگ فرما دیا اور صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اس جنگ کی تیاری کے لیے حکم دے دیا۔ 35 قریش پر کامیاب حملہ کرنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اس پورے منصوبے کو مخفی رکھا جائے۔ اعلان جنگ کے بعدآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اللہ کی بارگاہ میں اس طرح دعا فرمائی:

اللهم خذ العيون والأخبار عن قريش حتى نبغتها في بلادها.36
اے اللہ !قریش سےبصارت اور سماعت کو دور کردے یہاں تک کہ ہم ان کو ان کے شہر میں جا لیں۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی جنگی منصوبہ بندی کو مزید خفیہ رکھنے اور دشمن کو اچانک جا لینے کے لیے 8 صحابہ کرام Radi Allah Anhum پر مشتمل ایک دستہ حضرت ابو قتادہ Radi Allah Anho کی سرکردگی میں" اضم"کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ جگہ مدینہ سے تھوڑے سے فاصلے پر تھی اور اس گروہ کی روانگی کا مقصد ان لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا تھا جو کسی نہ کسی صورت قریش کو مسلمانوں کی نقل وحرکت اور منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کرنے والے تھے۔ 37

حاطب بن ابی بلتعہ کا خط

مسلمان فوج ابھی مکہ کی سمت روانہ ہونے ہی والی تھی کہ حاطب بن ابی بلتعہ Radi Allah Anho جنہوں نے جنگ بدر میں بھی شرکت کی تھی، 38 انہوں نےایک خط قریش کے نام لکھا اور اسے ایک خاتون کے حوالے کیا کہ وہ قریش کو مسلمان فوج کی مکہ کی طرف روانگی کے بارے میں اطلاع دے دے۔ 39 اللہ تعالی نے اپنے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وحی کے ذریعے حضرت حاطب Radi Allah Anho کی اس غلطی پر آگاہ فرمادیا چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فوری طور پر حضرت علی Radi Allah Anho اور زبیر بن عوام Radi Allah Anho کو حضرت حاطب Radi Allah Anho کی بھیجی ہوئی خاتون کے پیچھے بھیجا کہ وہ انہیں روک کر اس سے وہ خط برآمد کر سکیں۔ حضرت علی Radi Allah Anho اور حضرت زبیر Radi Allah Anho اس خاتون کے پیچھے روانہ ہوئے اور اسے "روضہ خاخ" کے مقام پر جا لیا۔ دونوں صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے اس خاتون سے اس کے سامان کے بارے میں تفتیش فرمائی اور اس کے سامان کی تلاشی بھی لی لیکن اس میں سے کوئی خط برآمد نہ ہوا لیکن دونوں صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا اس بات پر غیر متزلزل ایمان تھا کہ جو کچھ انہیں اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حکم دیا ہے اس میں رتی برابر غلطی کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس خاتون سے کہا کہ اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی لہذا بہتر یہ ہے کہ وہ خط جو اس کے پاس ہے وہ ان کے حوالے کر دے ورنہ پھر وہ شدید قسم کےنتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ دونوں صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی اس دھمکی نے اس خاتون کو ڈرا دیا چنانچہ اس نے اپنے سر کے بالوں کو کھولا اور وہ خط جو ان بالوں میں چھپا ہوا تھا اسے نکال کر ان دونوں کے حوالے کردیا۔ 40 جب وہ خط آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت حاطب Radi Allah Anho کو اپنے پاس بلوایا اور ان کے اس عمل کی ان سے وضاحت طلب فرمائی۔ حضرت حاطب Radi Allah Anho نے اپنے اس فعل پر انتہائی ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا اور احساس جرم کے ساتھ اپنی غلطی اور کوتاہی کو بھی قبول فرمالیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ کسی منافقت یا سازش کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اسلام کو ترک کیا ہےبلکہ وہ اس خط کے ذریعے قریش کے شکریہ کا مستحق بن کر اپنے اہل خانہ جو اس وقت مکہ مکرمہ میں مقیم تھے انہیں مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں تحفظ فراہم کرانا اور ان کے ظلم و تشدد سے بچانا چاہتے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت حاطب Radi Allah Anho کی یہ وضاحت سننے کے بعد نہایت باوقار اور مثبت طریقے سے ان کے پیش کردہ عذر کو قبول فرمایا اور ان کی اس غلطی کو بغیر کسی غیض وغضب کے معاف فرما دیا۔ 41

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مکہ روانگی

10 رمضان المبارک سن 8 ہجری کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam 10 ہزار افراد پر مشتمل لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئےاور نکلنے سے پہلے اپنی غیر موجودگی میں حضرت ابو رھم غفاری Radi Allah Anho کو عارضی طور پر مدینہ منورہ کا والی مقرر فرمایا۔ 42 اس فوج میں مہاجرین کی تعداد 700 تھی جن کے پاس 300 گھوڑے تھے جبکہ انصاری مسلمانوں کی تعداد 4000 پر مشتمل تھی جن کے پاس 500 گھوڑے تھے۔ مجموعی طور پر اِرد گرد کے قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد اور آس پاس کے علاقوں کے مسلمان مجاہدین نے اس تعداد کو 10000 تک پہنچا دیا۔ یہ 10000 کا لشکر مدینہ منورہ سے نکل کر کسی بھی طرف مہم جوئی کے لیے جانے والا اس وقت تک کا سب سے بڑا لشکر تھا۔ 43 مسلمانوں کے پورے لشکر نے اس دن روزہ رکھا ہوا تھا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم پر مقامِ "قدید/کدید" پہنچ کر انہوں نے اپنا یہ روزہ افطار کر ڈالا۔ 44 اس روزے کو افطار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان بھرپور طاقت و توانائی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ 45

اہل مکہ بھی اس بات کے لیے نہایت متجسس تھے کہ وہ جان سکیں کہ مسلمان کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس لیے ابو سفیان، حکیم ابن حزام اور بدیل بن ورقہ مکہ سے نکل پڑے تاکہ مسلمانوں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات کو جمع کیا جا سکے کیونکہ انہیں اب تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ارادے سے مکمل لا علمی تھی اور مسلمان فوج کے بارے میں بھی ان کی آگاہی اور معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ 46

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانوروں پر شفقت

مسلمانوں کا لشکر جب مدینۃ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ روانہ ہوا تو مقام ِ"عرج" کے پاس کسی جگہ پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک کتیا کو راستے کے درمیان لیٹے اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کتیا اور اس کے بچوں کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے اور بچانے کے لیے پورے قافلے کو روک دیا اور ایک صحابی حضرت جمیل Radi Allah Anho ابن سراقہ کو وہاں ان کی حفاظت کی غرض سے کھڑا کردیا 47 تاکہ وہ آنے والے مسلمان لشکر کی زد میں آکر اس کتیا اور اس کے بچوں کو کچلے جانے سے بچا سکیں۔ 48 یوں وہ کتیا اور اس کے بچے بھی بچ گئے اور مسلمانوں کا لشکر اس کے برابر سے گذر گیا۔

سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن امیہ کا قبول اسلام

مسلمانوں کا لشکر جب مقامِ "ابواء" پر پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن ابی امیہ وہاں پر مسلمانوں کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ان کی آمد پر وہ اسلام قبول کر لیں۔ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن امیہ دونوں اپنی سابقہ دشمنی اور جارحانہ رویوں کے باعث نہایت شرمندہ تھے اور وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ وہ کس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سامنا کریں چنانچہ انہوں نے حضرت علی Radi Allah Anho سے اس مسئلے میں مشورہ فرمایا۔ حضرت علی Radi Allah Anho نے دونوں کو یہ نصیحت کی کہ انہیں اس موقع پر وہی کرنا چاہیے جو برادران یوسف نے حضرت یوسف Alaihis Salam کو دکھ اور تکالیف سے دوچار کرنے کے بعد طلبِ معافی کے لئے کیا تھا۔ چنانچہ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن امیہ نے بالکل اسی طرح وہی کچھ کیا جس طرح حضرت علی Radi Allah Anho نے انہیں ہدایت دی تھی۔ 4950 وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جا پہنچے اور مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیت مبارکہ پڑھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سنائی:

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ9151
وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھے۔

قرآن کریم کی اس آیت کو سننے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بالکل وہی جواب ان دونوں کو دیا جو حضرت یوسف Alaihis Salam نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان دونوں کی معذرت کو قبول کرتے ہوئے دونوں کو ان کی سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں پر معاف فرما دیا۔ 52

اس حوالے سے سے ابن اسحاق Rehmatullah Alaih اور امام زرقانی Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ سفیان بن الحارثہ نے اس وقت اس بات کی قسم اٹھا لی تھی کہ یا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam انہیں ملاقات کی اجازت دیں گے یا پھر وہ کسی صحرا کی طرف نکل جائیں گے جہاں بھوک و پیاس سے ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب سفیان بن الحارثہ کی اس قسم کے بارے میں پتا چلا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے سابقہ جرائم سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے انہیں ملاقات کی اجازت دی۔ اس طرح سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن ابی امیہ نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دست اقدس پر اسلام قبول فرمالیا۔ 5354

حضرت عباس بن عبدالمطلب Radi Allah Anho کا اعلان اسلام

حضرت عباس بن عبدالمطلب Radi Allah Anho فتح مکہ سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اپنے اہل خانہ اور اپنی جائیداد اور مال و دولت کی حفاظت کی خاطر انہوں نے اپنے اسلام لانے کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ جب آپ Radi Allah Anho مکہ پر مسلمانوں کی لشکر کشی کے بارے میں آگاہ ہوئے تو اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ ان کی ملاقات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مقام "جحفہ" میں ہوئی۔ 55 سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ انہیں فتح مکہ سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت اور سعادت سے نوازا جائے لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں اس بات کی اجازت دینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا:

يا عم، أقم مكانك الذي أنت فيه، فإن اللّٰه يختم بك الهجرة، كما ختم بي النبوة. 56
اے چچا جان! آپ اپنے مقام پر ٹھہرے رہیں اللہ تعالی نے آپ پر ایسے ہی ہجر ت ختم فرمادی جیسا کہ مجھ پر نبوت ختم فرمائی ہے۔

غزوہ مکہ اور 10000 آگ کی حکمت

لشکر اسلام نے مکہ پہنچنے سے پہلے "مرّالظہران" کے علاقے میں قیام کیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے تمام صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو حکم دیا کہ وہ اس میدان میں پھیل جائیں اور جہاں وہ قیام پذیر ہوئے ہیں وہاں ہر آدمی اپنے سامنے آگ کو روشن کر دے۔ 57 اس طرح اس پورے میدان میں 10 ہزار افراد میں سے ہر ایک شخص کے انفرادی طور پر آگ روشن کیے جانے کا اثر یہ ہوا کہ اس آگ کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بتائے ہوئے اس جنگی طریقہ کار کا نہایت مثبت نتیجہ مسلمانوں کے حق میں یہ نکلا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کے اس تاثر نے اہل مکہ کو خوفزدہ کر دیا۔ 58

ابو سفیان کا اسلام لانا

حضرت عباس بن عبدالمطلب Radi Allah Anho بہت نرم دل ہونے کی وجہ سے چاہتے تھے کہ اہل مکہ کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے خطرناک نتائج سے آگاہ کریں۔ آپ Radi Allah Anho حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سفید خچر کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا کہ راستے میں ابو سفیان اور حکیم رات کی تاریکی میں پریشان حال گھوم رہے تھے۔حضرت عباس Radi Allah Anho جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں اس حقیقت پر آگاہ فرمایا کہ وہ اس وقت مسلمانوں کی خیمہ گا ہوں کے ارد گرد جو آگ دیکھ رہے ہیں وہ مسلمان فوج کی قوت اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے کافی ہے لہذا اگر ابو سفیان اس وقت سر تسلیم خم نہیں کرتے تو انہیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اہل مکہ کے اندر اس وقت اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے اس بڑے لشکر کے ساتھ لڑ سکیں۔ چنانچہ ابو سفیان اور حکیم حضرت عباس Radi Allah Anho کے ساتھ اس خچر پر سوار ہو کر اسلامی لشکر گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مسلمان فوج نے جب دیکھا کہ یہ خچر تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہےتو کسی نے بھی اس سے تعرض نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اسے روکنے کی جرات کی لیکن حضرت عمر Radi Allah Anho جو اس وقت نہایت چوکس تھے انہوں فوراً جان لیا کہ حضرت عباس Radi Allah Anho کے پیچھے کون بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے سیدھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خیمے تک پہنچ گئے۔ حضرت عمر Radi Allah Anho اس وقت شدید غصے میں تھے لیکن قبل اس کے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا حضرت عباس Radi Allah Anho نے بآ واز بلند اعلان کر ڈالا کہ وہ ابو سفیان کو اپنی پناہ دے چکے ہیں۔اس بات پر حضرت عمر Radi Allah Anho مزید ناراض ہوئے اور حضرت عباس Radi Allah Anho سے تلخ کلامی فرمائی جس کے نتیجے میں دونوں شخصیات کی آواز بلند ہو گئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب یہ معاملہ دیکھا تو حضرت عباس Radi Allah Anho کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ ابو سفیان کو اس وقت اپنے خیمے میں لے جائیں اور انہیں صبح لے کر آئیں۔ 59

صبح فجر کی نماز کے وقت ابو سفیان نے نماز کے لیے اذان کو سنا اور دیکھا کہ پوری مسلمان فوج ایک جگہ جمع ہو کر باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مستعد ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اہتمام کے ساتھ وضو کرتے اور صف بندی کرتے بھی دیکھا تو کہنے لگے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی قوم کو اتنے نظم و ضبط کے ساتھ اپنے امام کی اطاعت کرتےنہیں دیکھا خواہ وہ ایرانی مجوسی ہوں یا رومی عیسائی۔ مسلمان جو اس وقت تقریبا 10 ہزار کی تعداد میں تھے انہوں نے جس نظم و ضبط اور درستگی کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امامت میں نماز کو ادا کیا اس بات نے ابو سفیان کے دل پر بہت گہرا اثر ڈالا چنانچہ نماز ختم ہونے کے بعد وہ حضرت عباس Radi Allah Anho کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دینِ اسلام کو قبول فرمالیا۔ 60

حضرت ابو سفیان Radi Allah Anho کے اسلام قبول کر لینے کے بعد حضرت عباس بن عبدالمطلب Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں یہ بات عرض کی کہ ابو سفیان Radi Allah Anho عرب میں ایک قابل عزت و تکریم شخصیت رہے ہیں جس کا مطلب سمجھتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ اعلان فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ قتل و غارت گری سے محفوظ ہوگا اسی طرح جو شخص مسجد میں پناہ لے گا اس کی جان، مال ، عزت و آبرو بھی محفوظ رہیں گے اور وہ شخص جو اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر دے گا اسے بھی امان حاصل ہوگی۔ 61 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس موقع پہ حضرت عباس کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ ابو سفیان کو لے کر اونچے پہاڑی مقام پر چلے جائیں اور وہاں سے انہیں مسلمانوں کے لشکر کا بغور معائنہ اور مشاہدہ کروائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی قوت و حشمت اور طاقت و صلاحیت کو دیکھ کر اہل مکہ کو آگاہ کر سکیں۔ 62 ابوسفیان نے اونچے مقام پر جا کر دیکھا کہ مسلمان لشکر مختلف دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے دستے کا باقاعدہ ایک سربراہ ہے۔ 63 اس کے بعد میں انہوں نے دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو صحابہ کرام نے اپنے مکمل حصار میں لیا ہوا ہے جس پرابو سفیان حضرت عباس سے کہنے لگے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تو اب بادشاہ بن گئے ہیں جس پر حضرت عباس نے فرمایا کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سچے نبی ہونے کا ثبوت ہے۔ 64

اسلامی لشکر کی اس قوت و طاقت کا مشاہدہ کرنے کے بعد ابو سفیان تیزی سے مکہ مکرمہ پہنچے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان لشکر کی قوت اور طاقت کے بارے میں بتایا۔ پھر آپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہر وہ شخص جو ان کے گھر میں آ کر پناہ لےگا، مسجدالحرام میں داخل ہو کر پناہ لے گا یا پھر اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر کے اندر رہے گا تو ان تمام افراد کے جان مال اور ان کی عزت و آبرو محفوظ رہے گی اور کوئی ان سے تعرض نہیں کرے گا۔ 65 ابو سفیان سے یہ اعلان سننے کے بعد اہل مکہ مختلف مقامات کی طرف منتشر ہو گئے اور جن جن جگہوں کا ابو سفیان نے اپنے اعلان میں بطور امان ذکر کیا تھا وہاں جا کر انہوں نے پناہ حاصل کر لی۔ 66

مسلم فوج کی تقسیم

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فوج کومختلف مقامات کی حساسیت کے لحاظ سے تقسیم کر رکھا تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خالد بن ولید اور ان کے لشکر کو مکہ کے جنوب کی طرف سے داخل ہو کر بیت اللہ کے قریب مسلمانوں کے عَلَم نصب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ رخ شہر مکہ کا وہ حصّہ تھا جہاں اس وقت زیادہ تر اہل مکہ رہائش پذیر تھے۔ 67 حضرت خالد بن ولید کو اس کے ساتھ دوسرا حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کے ساتھ مقامِ صفا پَر ا ٓکر مل جائیں۔ 68 حضرت زبیر بن عوام کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حکم دیا تھا کہ وہ شہر مکہ یا شمال کی طرف سے مسلمانوں کا عَلَم لے کر داخل ہوں اور مقام حجون پر اس وقت تک رکے رہیں جب تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہاں پر نہ پہنچ جائیں۔ حضرت سعد ابن عبادہ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے آگے آگے چلتے رہیں چنانچہ اسی طرح دوسرے لشکری حصوں اوردستوں کو بھی مختلف ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ ممکن حد تک اس بات کی کوشش کریں کہ جنگ و جدل کی نوبت نہ آئے الّا یہ کہ ان پر کسی طرف سے حملہ ہو جائے یا پھر انہیں اپنے دفاع کے لیے لڑنا پڑے۔ 69

مدافعت کی ناکام کوشش

صفوان بن امیہ بن ابی جہل اور قریش و بنو بکر قبیلے کے مشرکین پر مشتمل بعض گروہوں نے اس بات پر حلف اٹھا رکھا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کو شہر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ وہ اس مقصدکے لیے مسلمانوں سے لڑنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے چنانچہ وہ اس کے لیے مقام خندمہ میں جمع ہو گئے۔ 70 یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑی جگہ تھی جو اس وقت مکہ کے جنوبی طرف واقع تھی۔ 71 مسلمانوں کی فوج کا وہ حصہ جو اس راستے سے گزر رہا تھا وہ حضرت خالد بن ولید کی ماتحتی میں تھا چنانچہ وہ جیسے ہی خندمہ پہنچے تو مشرکین کا ایک گروہ ان پر حملہ آور ہو کر تیر اندازی کرنے لگا۔ حضرت خالد بن ولید آگے چلتے رہے اور حملہ کرنے والوں کے ساتھ لڑتے رہے۔ حملہ آور مشرکین کچھ ہی دیر کے بعد پسپا ہو کر مختلف علاقوں کی طرف شکست خوردہ ہو کربھاگ گئے۔ ابو سفیان اور حکیم ابن حزام کو جب اس بے مقصد مدافعت اور لڑائی کے بارے میں پتہ چلاتو انہوں نے تمام اہل مکہ کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر وہ اپنی حفاظت چاہتے ہیں تو اپنے گھروں کے اندر پُرسکون طریقے سے دروازے بند کر کے رہیں۔ چنانچہ باقی ماندہ لوگ جو کسی بھی وجہ سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ہتھیار پھینک کر اپنے اپنے گھروں کے اندر دروازے بند کر کے پناہ حاصل کرلی۔ 72 مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کی ان جھڑپوں میں 23 یا 24 مشرکین مارے گئے 73 جبکہ مسلمانوں میں سےحضرت خنیس بن خالد اور کرزبن جابر نے جام شہادت نوش فرمایا۔74

مقامِ جحون پر مسلمانوں کااجتماع

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب صَفا پہنچے تو حضرت خالد نے اپنے لشکر کے ہمراہ حجون کی طرف پیش قدمی شروع کی جہاں حضرت زبیر بن عوّام آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد کے منتظر تھے۔ حضرت زبیر نے اس جگہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ایک خیمہ بھی لگا دیا تھا۔اب مسلمانوں کی تمام فوج اور پورا لشکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اِرد گِرد اس جگہ پر جمع تھا۔ یہاں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے زیر قیادت پورے لشکر نے شہر مکہ کی طرف پیش قدمی شروع فرمائی۔ 75 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حرم کے صحن میں تشریف لے گئے جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیت اللہ شریف گرد اپنے اونٹ پر طواف (7 چکر) ادا فرمایا۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عثمان بن طلحہ کو طلب فرمایا اور ان سے چابیاں لے کر بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہو گئے۔ 76 یہ وہ وقت تھا جب بیت اللہ 360 بتوں سے اَٹا پڑا تھا۔ 77 ابن ہشامRehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اندر داخل ہو کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے عصا مبارک کے ساتھ بتوں کی طرف اشارہ فرماتے چلے گئے۔ جس جس بت کی طرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اشارہ فرماتے وہ وہ بت اوندھے منہ زمین پر گِر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ 78 ایک دوسری روایت کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی کمان کے ساتھ ان بتوں کو توڑ ڈالا 79 اور بت توڑتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ پڑھتے چلے جا رہے تھے:

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا8180
اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل چلا گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔

تمام بتوں کو توڑ ڈالنے کی بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ 81 اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں سے اسلامی لشکر کےکئی دستوں کو بیت اللہ کے قرب و جوار میں اس غرض سے روانہ فرمایا کہ وہ جہاں جہاں بت یا بت کدے پائیں تو انہیں ختم کر کے شہر مکہ کو بتوں اور بت پرستی سےپاک و صاف کر دیں۔ 82 ہشام بن العاص تقریباً 200 افراد کے ساتھ یلملم روانہ کیے گئے جبکہ حضرت خالد بن سعید کو 300 افراد کے ساتھ عرنہ کی طرف بھیجا گیا۔ 83 حضرت خالد بن ولید کو "عُزّىٰ" کو گرانے کے لیے بھیجا گیا، جو مشرکین کے نزدیک سب سے بڑا اور اہم بت سمجھا جاتا تھا۔ خالد بن ولید تیس سواروں کے دستے کے ساتھ مقامِ عُزّىٰ پہنچے اور اس بت کو توڑ دیا۔ 84 جب آپ وہاں سے واپس لوٹ کر آئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ عزیٰ بت کو توڑ چکے ہیں تو حضرت خالد بن ولید نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کواثبات میں جواب دیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وہاں کوئی خاص بات دیکھی تھی جس پر خالد بن ولید نے نفی میں جواب دیا۔ خالد بن ولید کا نفی میں جواب سن کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں دوبارہ اسے توڑنے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت خالد بن ولید واپس وہاں پہنچےاور اس جگہ کا معائنہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ جس جگہ وہ بڑا بت نصب تھا اس کا نچلا حصہ اور بنیادیں ابھی تک صحیح و سالم انداز میں وہاں موجود تھیں چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے اس کی بنیاد کو بھی توڑ ڈالا۔ اچانک آپ نے دیکھا کہ وہاں سے ایک عورت جس کا رنگ نہایت سیاہ تھا اور وہ غلاظت میں لتھڑی ہوئی اور سر کے بال پراگندہ تھے، نکل کر بھاگی۔ حضرت خالد بن ولید نے تلوار کا وار کر کے اس عورت کابھی خاتمہ کر ڈالا اور پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ پورا واقعہ سن کر فرمایا کہ وہی عُزّی تھی جس کا اب تم نے خاتمہ کیا ہے۔ 85

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اہل مکہ سے خطاب

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیت اللہ کے دروازے پہ کھڑے ہو ئے اور اہل مکہ سے مخاطب ہو کر 86 ارشاد فرما یا:

لا اله الا اللّٰه صدق اللّٰه وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده ألاكل مأثرة أو دم أو مال يدعى فهو تحت قدمىّ هاتين الاسدانة البيت وسقاية الحاج۔ 87
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ تعالی نے اپنا کیا ہوا وعدہ سچا کردکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی، اکیلے (دشمن کے) لشکروں کو شکست دی ،جان لو کہ ہر قسم کے تفاخر، یا خون یا مال جس کا دعوی کیا جاتا ہے وہ میرے ان دونوں قدموں تلے ہے،سوائے بیت اللہ کی حفاظت پر مامور خادم خاندان کے اور حاجیوں کو پانی پلانے والے خاندان کی خدمت کے (باقی سب افراد و خاندانوں کے تمام فخریہ دعوے ختم کرتا ہوں)۔

اس کے بعد قریش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

يا معشر قريش ان اللّٰه قد أذهب عنكم نخوة الجاهلية وتعظمها بالاباء الناس لادم وآدم خلق من تراب.88
اے قریشیوں! اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کے تکبر کو، اور اپنے آباءواجداد پر فخرکرنے کو ختم کردیا ہے۔ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سورہ حجرات کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ1389
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور پھر ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔

پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے ان کی سابقہ نافرمانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں کے متوقع انجام کے متعلق پوچھا جو وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے توقع کر رہے تھے۔ اس پران سب نے مل کر جواب دیا کہ انہوں نے کبھی بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات اقدس میں شفقت، رحمت اور مودت کے ماسوا کچھ نہیں دیکھا۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے بعد اعلان فرمایا کہ تمام اہل مکہ کو آج معافی دی جاتی ہے اور وہ تمام آزاد ہیں۔ 90 صفوان بن امیہ جیسے شخص کو بھی معاف کر دیا گیا جس نے حضرت خالد بن ولید کے دستے کو مکہ میں داخلے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ 91 پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور انہیں کعبۃ اللہ کی چابیاں عطا فرما کر از سر نو اعزاز و اکرام سے نوازا۔اس کے بعد حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ کعبۃ اللہ کی چھت پر تشریف لے جائیں اور باآواز بلند اذان دیں۔ 92

مجرموں کو سزا

فتح مکہ کے موقع پر تمام اہل مکہ اور مشرکین کو معاف کردیا گیا سوائے ان چند افراد کے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سخت جانی دشمن اور عادی مجرم تھے اور اب تک اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ان لوگوں میں عبداللہ بن خطل اور مقیس بن صبابہ شامل تھے جنہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم پر قتل کیا گیا۔ 93 مقیس ابن صبابہ کو سزا ئے موت دینے کی وجہ اس کا ایک انصاری صحابی کو شہید کرنا تھا جو اُس کی مدد اس وقت کررہا تھا جب وہ اپنے بھائی کے خون بہا کا مطالبہ ان لوگوں سے کر رہا تھا جنہوں نے غلطی سے اس کے بھائی کو قتل کر ڈالا تھا۔ مزید یہ کہ مقیس بن صبابہ ارتداد یعنی ترک اسلام کا بھی مرتکب تھا 94 جس کی سزا اسلامی ریاست میں سزائے موت ہے۔ 9596 عبداللہ بن خطل کو بھی موت کی سزا اس کے ارتداد، قصاص اور گستاخی کی وجہ سے دی گئی تھی۔ اس نے ایک معصوم صحابی کو اس لئے قتل کردیا تھا کیونکہ انہوں نے اس کے لئے کھانہ بنانے سے انکار کردیا تھا جب یہ دونوں مسلمانوں سے زکوۃ کی رقم کو جمع کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اس کے بعد عبد اللہ ابن خطل نے اسلام کو ترک کر کے مرتد ہوگئے۔ 97 خواتین میں عبداللہ بن خطل کی دو باندیوں فرتنَی اورقریبہ کو ان کے جرائم کی پاداش میں سزا دے کر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک باندی فرتنی نے اسلام قبول کر لیا جسے پھر آزاد کردیا گیا جبکہ قریبہ کو قتل کر دیا گیا۔ 98 اس کا جرم یہ تھا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہجو اورگستاخی کی مرتکبہ تھی۔ 99

عکرمہ بن ابی جہل اور ہبّار بن اسود کے لئے معافی

ابو جہل کا بیٹا عکرمہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کے لشکر کے خلاف مقام خندمہ میں اہل مکہ کو اکسانے میں ملوث تھا 100 پہلے تو جان سے مار ڈالے جانے کے خوف سے بھاگ نکلا لیکن جب اس نے نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اخلاقِ کریمانہ کا خود مشاہدہ کیا اور اس کی بیوی ام حکیم نےآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےمشفقانہ رویہ کو اس کے سامنے بیان کیاتووہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دست اقدس پر اسلام کو قبول کر لیا۔ 101 اگرچہ کہ وہ اسلام کے جانی دشمن کا بیٹا تھا لیکن پھر بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے صلح رحمی کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔اس کےبعد ہبّار بن اسود کو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے معاف کردیا جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صاحبزادی حضرت زینب کے حمل کو ضائع کرنے کا سبب تھا اور اسے موت کی سزاسنادی جا چکی تھی۔ 102

قریش آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس پُر خلوص رحم دلی اور دریا دلی کو دیکھ کر حیران تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس محبت و شفقت پر مبنی رویے کی وجہ سے ہر عمر کے افراد جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے چلے گئے۔ 103 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ میں 15 دن تک قیام پذیر رہے 104 جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اہل مکہ اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کو اسلام کی اساسی و بنیادی تعلیمات اور ایمان و عقائد سے متعلق تعلیم دینے کا بندوبست فرمایا 105 اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔


  • 1  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 200
  • 2  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 423
  • 3  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 110
  • 4  أبو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الأشبیلی، ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر المعروف بتاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1981م، ص:458
  • 5  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 401
  • 6  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 687
  • 7  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق ، ج-1،مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:514
  • 8  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 730
  • 9  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 401
  • 10  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 201
  • 11  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 308
  • 12  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 401
  • 13  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 103
  • 14  أبو عبداللہ محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیة، سیرۃ خیر العباد (إعداد وترتيب: صالح أحمد الشامي)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 321
  • 15  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 201
  • 16  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 229- 230
  • 17  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 307
  • 18  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 560
  • 19  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 384
  • 20  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 45
  • 21  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 204
  • 22  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 231- 232
  • 23  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، حدیث: 4300، ج-17، مطبوعۃ: دار العاصمة للنشر والتوزيع، ریاض، السعودیۃ، 1419ھ، ص: 458
  • 24  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 402
  • 25  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 427
  • 26  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 46
  • 27  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 427
  • 28  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 235
  • 29  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 518
  • 30  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 236
  • 31  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 385- 386
  • 32  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 427-428
  • 33  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 471
  • 34  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 387
  • 35  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2005 م، ص: 351
  • 36  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 47
  • 37  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 38  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،2008م ، ص: 153
  • 39  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 209
  • 40  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 428
  • 41  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 472- 473
  • 42  أبو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الأشبیلی، ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر المعروف بتاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1981م، ص:458
  • 43  مارٹن لنگز، محمد رسول اللہ ﷺ (مترجم: کاظم جعفری)، مطبوعہ: بک کارنر، جہلم، پاکستان، 2015ء، ص: 437
  • 44  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 562
  • 45  مارٹن لنگز، محمد رسول اللہ ﷺ (مترجم: کاظم جعفری)، مطبوعہ: بک کارنر، جہلم، پاکستان، 2015ء، ص: 439
  • 46  أبو عبداللہ محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیة، سیرۃ خیر العباد (إعداد وترتيب: صالح أحمد الشامي)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 325
  • 47  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 212
  • 48  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 244
  • 49  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 405
  • 50  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2005 م، ص: 352- 353
  • 51  القرآن، سورۃ یوسف 12: 91
  • 52  أبو عبداللہ محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیة، سیرۃ خیر العباد (إعداد وترتيب: صالح أحمد الشامي)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 326
  • 53  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 522
  • 54  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 401
  • 55  ایضاً ، ص: 399
  • 56  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 5828، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 154
  • 57  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 474
  • 58  مارٹن لنگز، محمد رسول اللہ ﷺ (مترجم: کاظم جعفری)، مطبوعہ: بک کارنر، جہلم، پاکستان، 2015ء، ص: 440
  • 59  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 524
  • 60  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 217
  • 61  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 2008 م، ص: 34
  • 62  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 424
  • 63  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:311
  • 64  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 433
  • 65  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 257
  • 66  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 525-526
  • 67  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 415
  • 68  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 409
  • 69  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 415
  • 70  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 119
  • 71  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالامن للنشر والتوزیع، الرباط، المغرب، 2010م، ص: 840
  • 72  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 259
  • 73  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 355
  • 74  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 741
  • 75  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 410
  • 76  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 439
  • 77  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالامن للنشر والتوزیع، الرباط، المغرب، 2010م، ص: 842
  • 78  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 747
  • 79  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 440
  • 80  القرآن، سورۃ الاسراء 17: 81
  • 81  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4400، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 746
  • 82  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2005 م، ص: 364
  • 83  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 292
  • 84  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالامن للنشر والتوزیع، الرباط، المغرب، 2010م، ص: 855
  • 85  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 275
  • 86  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 534
  • 87  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 509- 510
  • 88  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 482
  • 89  القرآن، سورۃ الحجرات 49: 13
  • 90  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 482
  • 91  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 46
  • 92  أبو عبداللہ محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیة، سیرۃ خیر العباد (إعداد وترتيب: صالح أحمد الشامي)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 333- 334
  • 93  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 59
  • 94  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:530
  • 95  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 233، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 43
  • 96  أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن النسائی، حدیث: 4064، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 566
  • 97  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 743
  • 98  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:314
  • 99  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 577
  • 100  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالامن للنشر والتوزیع، الرباط، المغرب، 2010م، ص: 840
  • 101  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 2008 م، ص: 59- 60
  • 102  أبو عبداللہ محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیة، سیرۃ خیر العباد (إعداد وترتيب: صالح أحمد الشامي)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 355
  • 103  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالامن للنشر والتوزیع، الرباط، المغرب، 2010م، ص: 846
  • 104  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 513
  • 105  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 415

Powered by Netsol Online